🌟 سبق نمبر ۷ 🌟 💠 ایطائے جلی فی المطلع (مطلع میں ایطائے جلی

 

🌟 سبق نمبر ۷ 🌟  💠 ایطائے جلی فی المطلع (مطلع میں ایطائے جلی


🌟 سبق نمبر ۷ 🌟

💠 ایطائے جلی فی المطلع (مطلع میں ایطائے جلی) 💠

---


📘 تعریف:

جب مطلع کے دونوں مصرعوں میں ایسے قافیے آئیں

جن کے مصدر یا مادّۂ لفظ ایک ہوں

اور اگر ان کے زائد حروف (جیسے “نا”) کو نکال دیا جائے

تو بامعنی الفاظ باقی رہ جائیں،

تو یہ عیب ایطائے جلی فی المطلع کہلاتا ہے۔

---


📖 مثال:


> “کھلانا” اور “پلانا”

ان دونوں سے “نا” نکالنے پر “کھلا” اور “پلا” بچتے ہیں،

جو دونوں بامعنی الفاظ ہیں۔

لہٰذا مطلع میں ان قافیوں کا اکٹھا استعمال

ایطائے جلی فی المطلع ہے۔

---


🪶 اہم نکتہ:


مطلع میں دو قافیے ہوتے ہیں،

اس لیے ان میں ہم مادّگی (ایک ہی جڑ سے بننا) نہیں ہونی چاہیے۔


ایسی مماثلت قافیے کے حسن کو کم کر دیتی ہے۔


شاعر کو مطلع میں قافیے مختلف مادّے سے منتخب کرنے چاہییں۔


---


✍️ پیش کردہ:

آفتاب عالم گوہر قادری واحدی

📞 8400404186


📿 #سبق_نمبر_7

📿 #ایطائے_جلی_فی_المطلع

📿 #علم_قافیہ

📿 #بزم_آفتاب

📿 #آفتاب_عالم_گوہر_قادری



---

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے