والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہو

والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہو


والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہو



الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ 
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

والدین کے لئے مغفرت کی دعائیں  ماں باپ سے بے پروائی برتنا خدا کی ناشکری ہے‘‘ حدیث نبویﷺ

مرنے کے بعد  مردے کو تین چیزیں فائدہ پہنچاتی ہیں، صدقۂ جاریہ، پھیلایا ہوا علم اور صالح اولاد کی دعائے مغفرت ’’ اے پروردگار، میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی اور سب ایمان والوں کو اس روز معاف فرما دے جب کہ حساب قائم ہو گا‘‘ قرآن پاک میں ایک دعا

حضرت جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے محبوب دانائے غیوبﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یارسول اللہ! میرا ارادہ ہے کہ میں آپﷺ کے ہمراہ جہاد میں شرکت کروں اور اسی لئے آیا ہوں کہ آپﷺ سے اس معاملہ میں مشورہ لوں۔ (فرمائیے، کیا حکم ہے؟) ’’حضرت محمد مصطفیﷺ نے ان سے پوچھا۔ تمہاری والدہ (زندہ) ہیں؟ جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، جی ہاں (زندہ ہیں)۔ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، تو پھر جاؤ اور انھیں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت انہیں کے قدموں میں ہے‘‘  (ابن ماجہ، نسائی)

رضاعی ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیجئے، ان کی خدمت کیجئے اور ادب و احترام سے پیش آئیے۔ حضرت ابو طفیلؓ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے جعرانہ کے مقام پر رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ گوشت تقسیم فرما رہے ہیں۔ اتنے میں ایک خاتون آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپﷺ نے ان کو چادر بچھا دی، وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون صاحبہ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آقائے کریمﷺ کی وہ ماں ہیں، جنہوں نے آپﷺ کو دودھ پلایا تھا۔

 والدین کی وفات کے بعد بھی ان کا خیال رکھیے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے لیے ذیل کی باتوں پر کاربند رہیے:

(۱) ماں باپ کیلئے مغفرت کی دعائیں برابر کرتے رہیے۔ قرآن پاک نے مومنوں کو یہ دعا سکھائی ہے،ترجمہ:

رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیً وَلَلْمُوْمِنِیْنَ یَوْمَ َیقُوْمُ الّحِسَابُo  (ابراہیم :۴۱)

’’ پروردگار میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی اور سب ایمان والوں کو اس روز معاف فرما دے جب کہ حساب قائم ہو گا۔‘‘

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مرنے کے بعد جب میت کے درجات بلند ہوتے ہیں تو وہ حیرت سے پوچھتا ہے یہ کیوں کر ہوا۔ خدا کی جانب سے اس کو بتایا جاتا ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی رہی ( اور خدا نے ان کو قبول فرما لیا)۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ، ’’جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔ صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں، ایک صدقۂ جاریہ، دوسرے اس کا ( پھیلایا ہوا وہ) علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے۔‘‘

(۲) والدین کے کیے ہوئے عہد و پیمان اور وصیت کو پورا کیجئے۔ ماں باپ نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں سے کچھ وعدے کیے ہونگے۔ (اپنے خدا سے کچھ عہد کیا ہو گا۔ کوئی نذز مانی ہو گی۔ کسی کو کچھ مال دینے کا وعدہ کیا ہو گا۔ ان کے ذمہ کسی کا قرضہ رہ گیا ہو گا اور ادا کرنے کا موقع نہ پا سکے ہوں گے۔ مرتے وقت کچھ وصیتیں کی ہوں گی۔ آپ اپنے امکان بھر ان سارے کاموں کو پورا کیجئے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے سرکار دوعالمﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میری والدہ نے نذر مانی تھی، لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئیں، کیا میں ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر سکتا ہوں۔ پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں! تم ضرور ان کی طرف سے نذر پوری کر دو۔

(۳) باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہیے۔ ان کا احترام کیجئے۔ ان کو اپنے مشوروں میں اپنے بزرگوں کی طرح شریک رکھیے، ان کی رائے اور مشوروں کی تعظیم کیجئے۔ ایک موقع پر سرور کونینﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے زیادہ نیک سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ بھلائی کرے۔‘‘

ایک بار حضرت ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیمار ہوئے اور مرض بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی، تو حضرت یوسف بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دور دراز سے سفر کر کے ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے انہیں دیکھا تو تعجب سے پوچھا، آپ  یہاں کہاں؟ حضرت یوسف بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں یہاں محض اس لیے آیا ہوں کہ آپ  کی عیادت کروں۔ کیوں کہ والد بزرگوار سے آپ کے تعلقات بڑے گہرے تھے۔

حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں مدینے آیا تو میرے پاس حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے، ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آپ جانتے ہیں میں کیوں آپ کے پاس آیا ہوں؟ میں نے کہا۔ میں تو نہیں جانتا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے حضورﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص قبر میں اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہتا ہو، اس کو چاہیے کہ باپ کے مرنے کے بعد باپ کے دوست احباب کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور پھر فرمایا: بھائی میرے والد حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے والد میں گہری دوستی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس دوستی کو نباہوں، اور اس کے حقوق ادا کروں۔ (ابن حبان)

(۴) ماں باپ کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی برابر نیک سلوک کرتے رہیے اور رحم کے ان رشتوں کا پوری طرح پاس اور لحاظ رکھیے۔ ان رشتہ داریوں سے بے نیازی اور بے پروائی دراصل والدین سے بے نیازی ہے۔ سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا: آپ اپنے آباء و اجداد سے ہر گز بے پروائی نہ برتیں، ماں باپ سے بے پروائی برتنا خدا کی ناشکری ہے۔

۵۔ اگر زندگی میں خدانخواستہ ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہے تو پھر بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ مرنے کے بعد ان کے حق میں برابر خدا سے دعائے مغفرت کرتے رہیے۔ تو قع ہے کہ خدا درگزر فرمائے گا اور شمار اپنے صالح بندوں میں فرما دے گا۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا،

ترجمہ : ’’اگر کوئی بندۂ خدا زندگی میں ماں باپ کا نافرمان رہا اور والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا اسی حال میں انتقال ہوگیا تو اب اس کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے لیے برابر دعا کرتا رہے اور خدا سے ان کی بخشش کی درخواست کرتا رہے، یہاں تک کہ خدا اس کو اپنی رحمت سے نیک لوگوں میں لکھ دے۔

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں میرے پاس میری والدہ آئیں اور اس وقت وہ مشرکہ تھیں۔ میں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ میرے پاس میری والدہ آئی ہیں اور وہ مسلمان نہیں ہیں۔ کیا میں ان کے ساتھ سلوک کروں؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں، آپ اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کیجئے۔ (بخاری)

۶۔ماں باپ کے احسانات کو یاد کر کر کے خدا کے حضور گڑگڑا ئیے، انتہائی دل سوزی اور قلبی جذبات کے ساتھ ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کیجئے۔

خدا کا ارشاد ہے:

وَقُّلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّینِی صَغِیْرًاo  (بنی اسرائیل :۲۴)

ترجمہ: ’’اور دعا کرو کہ پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی۔‘‘

یعنی اے پروردگار بچپن کی بے بسی میں، جس رحمت و جاں فشانی اور شفقت و محبت سے انہوں نے میری پرورش کی اور میری خاطر اپنے عیش کو قربان کیا! پروردگار، اب یہ بڑھاپے کی کمزوری اور بے بسی میں مجھ سے زیادہ خود رحمت و شفقت کے محتاج ہیں، خدایا! میں ان کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتا تو ہی ان کی سرپرستی فرما اور ان کے حال زار پر رحم کی نظر کر۔

۷۔ ماں کی خدمت کا خصوصی خیال رکھیے۔ ماں طبعاً زیادہ کم زور اور حساس ہوتی ہے اور آپ کی خدمت و سلوک کی نسبتاً زیادہ ضرورت مند بھی۔ پھر اس کے احسانات اور قربانیاں بھی باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اس لیے دین نے ماں کا حق زیادہ بتایا ہے اور ماں کے ساتھ سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،

ترجمہ:’’اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لیے لیے پھری، اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ ( تکلیف دہ ) مدت ڈھائی سال ہے۔‘‘  (الاحقاف:۱۵)

قرآن نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے اور کٹھنائیاں جھیلنے کا نقشہ بڑے ہی اثر انگیز انداز میں کھینچا ہے اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جاں نثار ماں، باپ کے مقابلے میں تمہاری خدمت و سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ اور پھر اسی حقیقت کو خدا کے رسول ﷺ نے بھی کھول کھول کر بیان فرمایا ہے
جامعہ ام سلمہ و جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم وام سلمہ جونییر ہائی اسکول دریاآباد میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کے لئے رابطہ کریں
8009968910.8009059597 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے