کلام امام الکلام کلام الامام حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ


محمد سعود



 کلام امام الکلام کلام الامام حضرت 

امام احمد رضا خان بریلوی 

رضی اللہ تعالٰی عنہ


 پیش کردہ جناب حافظ و قاری محمد سعود متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم

 دریاآباد 


چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے​

مرا دل بھی چمکادے چمکانے والے​

برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت​

بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے​

مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے​

غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے​

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ​

مِرے چشمِ عالَم سے چھپ جانے والے​

میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو​

کہ رستے میں ہیں جا بجا تھانے والے​

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا​

ارے سَر کا موقع ہے او جانے والے​

چل اٹھ جبہ فرسا ہو ساقی کے در پر​

درِ جود اے میرے مستانے والے​

تِرا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں​

ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے​

رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا​

پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے​

اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی​

ذرا چین لے میرے گھبرانے والے​

رضا نفس دشمن ہے دَم میں نہ آنا​

کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے​

پیش کردہ محمد سعود متعلم گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی 

حضور پیر طریقت رہبرراہ شریعت ناشر مسلک اعلیحضرت مرشد دریاآباد ابوالحسنات حضور سید آفتاب عالم گوہر قادری واحدی صاحب کے مدارس میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کے لئے رابطہ کریں

 

8009968910.8009059597

https://www.jamiaummesalma.com/2023/05/blog-post_28.html


کلام اعلیحضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ



نعت شریف 
پیش کردہ حافظ وقاری محمد سعود رضوی متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد 
ہمارے مدارس میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کے لئے رابطہ کریں موبائل نمبر 8009968910
8009059597

وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹّی
نظر میں بسانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کُچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدیق اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت 
جہاں جاں لٹانے کو دِل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
جہادِ محبت کی آواز گونجی 
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت آگر دو تو جام شہادت
لبوں سے لگانے کو دِل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر وہ ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا ہے وہ خیمے میں رو کر
اے بابا! میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
مرا سر کٹانے کو دِل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا پتہ ہے وہ ٹکڑوں کا عالم
اشاروں میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کے پھر ٹوٹ جانے کو دِل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمال رسالت
تو طاھر! عمر مصطفیٰ سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے و دِل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیٰﷺہیں
وہیں گھر بنانے کو دِل چاہتا ہے  
 پیش کردہ محمد سعود رضوی متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد ہمارے مدارس میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کے لئے رابطہ کریں موبائل نمبر    8009968910
  8009059597

نعت شریف  پیش کردہ حافظ وقاری محمد سعود رضوی متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد  ہمارے مدارس میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کے لئے رابطہ کریں موبائل نمبر 8009968910 8009059597


استاذِ زمن شہنشاہِ سخن کی ایک نہایت ہی خوب صورت اور پُر اثر نعت پاک ؎

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے
رشحۂ خامہ: مولانا حسن رضا بریلوی
__________________ 
پش کردہ محمد سعود رضوی جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد ہمارے مدارس میں بچوں اور بچیوں کے لئے رابطہ کریں موبائل نمبر

8009059597  8009968910
 نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم 

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے
لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے
تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے
تری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے
بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہے
تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے
وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہے
دَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے
منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہے
مشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے
تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کا
تمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے
فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوۂ عارض
ضیائے طالعِ بدر اُن کا اَبروئے ہلالی ہے
وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپنا
کہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے
سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلاؤں کو
اِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے
نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیں
مژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے
فقیرو بے نواؤ اپنی اپنی جھولیاں بھر لو
کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے
تجھی کو خلعتِ یکتائیِ عالم ملا حق سے
ترے ہی جسم پہ موزوں قبائے بے مثالی ہے
نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے
نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے
بڑھے کیونکر نہ پھر شکل ہلال اسلام کی رونق
ہلالِ آسمانِ دیں تری تیغِ ہلالی ہے
فقط اتنا سبب ہے اِنعقادِ بزمِ محشر کا
کہ اُن کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے
خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا
مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے
اُتر سکتی نہیں تصویر بھی حسنِ سراپا کی
کچھ اس درجہ ترقی پر تمہاری بے مثالی ہے
نہیں محشر میں جس کو دسترس آقا کے دامن تک
بھرے بازار میں اِس بے نوا کا ہاتھ خالی ہے
نہ کیوں ہو اِتحادِ منزلت مکہ مدینہ میں
وہ بستی ہے نبی والی تو یہ اﷲ والی ہے
شرف مکہ کی بستی کو ملا طیبہ کی بستی سے
نبی والی ہی کے صدقے میں وہ اﷲ والی ہے
وہی والی وہی آقا وہی وارث وہی مولیٰ
میں اُن کے صدقے جاؤں اور میرا کون والی ہے
پکار اے جانِ عیسیٰ سن لو اپنے خستہ حالوں کی
مرض نے درد مندوں کی غضب میں جان ڈالی ہے
مرادوں سے تمہیں دامن بھرو گے نامرادوں کے
غریبوں بیکسوں کا اور پیارے کون والی ہے
ہمیشہ تم کرم کرتے ہو بگڑے حال والوں پر
بگڑ کر میری حالت نے مری بگڑی بنا لی ہے
تمہارے دَر تمہارے آستاں سے میں کہاں جاؤں
نہ کوئی مجھ سا بیکس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے
حسنؔ کا درد دُکھ موقوف فرما کر بحالی دو
تمہارے ہاتھ میں دنیا کی موقوفی بحالی ہے
٭٭٭

محمد سعود رضوی متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)