بدعت کسے کہتے ہیں ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی

بدعت کسے کہتے ہیں 

ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی

بدعت کسے کہتے ہیں   ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی

بدعت سے دور رہیں

ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی

بدعت کسے کہتے ہیں 


مذہبِ اسلام میں کوئی نیا طریقہ جوڑنا بدعت ہے اسکی 2 قسمیں ہیں ملا علی قاری بدعت کی اقسام بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :بدعت واجبہ:جیسا علم اور قرآن سمجھنے کے لیے اصول فقہ کا جمع کرنااسی طرح بدعت حرام ٫ مستحب ٫مکروہ اور مباح ہے یہ بھی بدعت کی اقسام ہیں وہ کام جِسے علماء عارفین ایجاد کریں شریعت کے خلاف نہ ہو اچھا کام ہے (رهل بیان)جو عمل لوگوں میں مشہور ہوجائے اور شریعت کے مطابق ہو اسکی اتباع ضروری ہے (بدیع الصنایا از امام کااسانی)جو کام شریعت کے مختلف نہ ہو وہ بدعت حسنہ (امدۃ القاری از علامہ بدرالدین عینی)اگر یہ کہا جائے کے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں تو یہ بات حدیث کے خلاف ہے (علامہ شامی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو امام بنایا اور فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہےحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی حکم دیا کے رمضان میں رات کو نماز پڑھائیں فرمایا کے لوگ دن کو روزے رکھتے ہیں رات کو اچھی طرح سے قرات نہیں کر سکتے لہٰذا تم نماز پڑھاو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا اس چیز کا تو پہلے وجود نہیں تھا (نیا کام بدعت ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ فرمایا جی ہاں میں جانتا ہوں لیکن بہت اچھے طریقے ہیں چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو 20 رکعت نماز پڑھائی{کنزالعمال جلد 8 صفحہ 409}

بدعت سے دور رہیں

بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے مبارک دور میں نہ تھا بعد میں کسی نے اس کو شروع کیا، اب اگر یہ کام شریعت سے ٹکراتا ہے تو اس بدعت کو بدعتِ سَیّئہ یعنی بُری بدعت کہتے ہیں، اسی کے بارے میں سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ یہ مَردود ہے اور وہ نیا کام جو قرآن و سنّت کے خلاف نہیں ہے اسکو بدعتِ مُباحہ یا حَسَنَہ یعنی اچھی بدعت کہتے ہیں یعنی حکم کے اعتبار سے مُباح ہے تو مُباحَہ اور مستحسن ہے تو حَسَنَہ بلکہ بعض بدعاتِ حَسَنَہ تو واجِبَہ بھی ہوتی ہیں جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

اچھی بدعت کو بدعتِ حَسَنَہ کہا جاتا ہے اس پرعمل کرنا کبھی واجب،کبھی مستحب ہوتاہے اوراچھا طریقہ جاری کرنے والا اجروثواب کا حقدار ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں


ہے:’’جو کوئی اسلام میں اچھاطریقہ جاری کرے اس کو اس کا ثواب ملے گا او راس کابھی جو اس پر عمل کریں گے او ران کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی اور جو شخص اسلام میں بُراطریقہ جاری کرے اس پر اس کا گناہ ہوگا اوران کا بھی جو اس پر عمل کریں او ران کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ آئے گی۔[1]

حضرت سیّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے تک مسلمان تنہااکیلے اکیلے نمازِ تراویح پڑھا کرتے تھے، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مسجد کے پاس سے گزرے اور ان کو تنہا تراویح پڑھتے دیکھا تو سب کو ایک جگہ جمع کیا اور تراویح کی جماعت شروع کروائی اور حضرت اُبیّ بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کا امام مُقرّر کیا اور پھر یہ الفاظ ارشاد فرمائے: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یعنی یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔[2]


بدعت کی تین قسمیں ہیں:۔(۱)بدعتِ حَسَنَہ(۲)بدعتِ سَیّئہ (۳)بدعتِ مُباحَہ


بدعتِ حسنہ: وہ بدعت ہے جو قرآن وحدیث کے اُصول وقواعد کے مطابق ہو اور شریعت کی نگاہ میں اس پر عمل کرنا ضروری ہو یا بہتر، اس کی دوقسمیں ہیں:


(۱)…بدعتِ واجبہ جیسے: قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے علمِ نحوکا سیکھنا اور گمراہ فِرقوں پر رَدّ کے لئے دلائل قائم کرنا۔



(۲)…بدعتِ مستحبہ جیسے:مدرسوں کی تعمیر اور ہر وہ نیک کام جس کا رواج ابتدائی زمانہ میں نہیں تھا جیسے محفلِ میلاد شریف وغیرہ۔


بدعتِ سیّئہ: وہ بدعت ہے جو قرآن وحدیث کے اُصول وقواعد کے مُخالِف ہو،اس کی بھی دوقسمیں ہیں:


(۱)…بدعتِ محرمہ،جیسے بُرے عقائد


(۲)…بدعتِ مکروہہ، جیسے گناہوں کے نت نئے انداز


بدعتِ مُباحہ: وہ بدعت ہے جو حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ظاہری زمانہ میں نہ ہو اور حکمِ شریعت کے خلاف نہ ہو اور کرنے والا ثواب کا حقدار بھی نہ ہو جیسے عمدہ عمدہ کھانے وغیرہ :


(۱)…حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی لیکن حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مبارک زمانے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔


(۲)…قرآنِ پا ک کے اوپرنقطے و اعراب حجاج بن یو سف کے دور میں لگے ہیں چاروں صحابہ عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان نے یہ کا م نہیں کیا جو اس نےکروایا اور اس پر کسی عالِم نے انکا ربھی نہیں کیا علمائے حق کی اجازت و تحسین کی بناء پر یہ عمل بھی مستحسن ہے۔


(۳)…مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لئے محراب بناناولید مَروانی کے دور میں سیّد نا عمر بن عبدالعزیزرَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْه نے ایجاد کیا تھا۔


(۴)…چھ کلمے،اس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے مقدّس دور میں مرتب نہ تھے۔لیکن ان کاموں کو کوئی گناہ نہیں کہتا اورنہ ہی کوئی منع کرتاہے آخر کیوں؟


اس کی وجہ یہ ہے کہ ممانعت کی دلیل موجود نہیں ہے اگرچہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم یا صحابۂ کرام عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان کے زمانے میں بعض کام نہیں ہوئے مگر چونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابۂ کرام عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان نے ان سے منع بھی تو نہیں فرمایا ہے لہٰذا یہ کام کرنا،جائز ہے۔ (بنیادی عقائد اور معمولات اہلسنت،ص۱۱۸تا ۱۲۱)

حافظ نور عالم سرتا جی✍️

https://www.jamiaummesalma.com/2021/07/blog-post_38.html

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے