شکست ناروا کیا ہے شکست ناروا کسے کہتے ہیں

#سوال : شکست ناروا کیا ہے؟؟؟  #جواب : شکست ناروا سے مراد کسی شکستہ بحر میں کسی لفظ یا ترکیب کا ٹوٹنا ہے ۔  شکستہ بحر اس بحر کو کہتے ہیں جس میں عروضی وقفہ آتا ہے ۔ عروضی وقفے مراد کسی بحر میں وہ مقام ہے جہاں آپ ایک حرف بڑھا بھی دیں تو مصرع بے وزن نہ ہو ۔ ان بحروں میں عمومی طور پر افاعیل کے جوڑے کی تکرار ہوتی ہے ۔ مثلا  متفاعلن فعولن، متفاعلن فعولن مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلن مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن ّّوغیرہ  "مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن ۔ میں اعلیحضرت یہ کلام دیکھیے ۔  پوچھتے کیا ہو عرش پر[] یوں گئے مصطفی کہ یوں  کیف کے پر جہاں جلیں [] کوئی بتائے کیا کہ یوں  درج بالا مطلع میں مصرعوں کے بالکل درمیان میں عروضی وقفے کی نشاندہی [] کی علامت سے کی گئی ہے ۔ اگر اس مقام میں ایک "حرف" بڑھا بھی دیا جائے تو مصرع وزن میں رہتا ہے ۔ مثلا اسی نعت مبارکہ کا یہ شعر دیکھیے  دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا، دو نیم کر  مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں  اب اسے اس طرح دیکھیے  دل کو دے نور و داغِ عش[ق]، پھر میں فدا، دو نیم کر  مانا ہے سن کے شقِ ما[ہ]، آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں  پہلے مصرعے میں ق اور دوسرے مصرعے میں ہ نہ بھی ہوں تو مصرعے وزن میں رہیں گے ۔  بحر کی احتیاط کسی شکستہ بحر میں جہاں آہنگ کے لیے عروضی وقفے کی سہولت ہے وہاں یہ احتیاط بھی رکھی جاتی ہے کہ بالکل درمیان میں آکر کوئی لفظ یا ترکیب نہ ٹوٹے ۔ اسی کلام میں اعلیحضرت کا یہ شعر دیکھیے ۔  میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں  صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں  مصرع اولی میں "جلوۂ اصل" میں جلوہ بحر کے پہلے حصے اور اصل بحر کے دوسرے میں آ پڑا ہے ۔

 شکست ناروا کیا ہے شکست ناروا کسے کہتے ہیں 

#سوال : شکست ناروا کیا ہے؟؟؟

#جواب : شکست ناروا سے مراد کسی شکستہ بحر میں کسی لفظ یا ترکیب کا ٹوٹنا ہے ۔

شکستہ بحر اس بحر کو کہتے ہیں جس میں عروضی وقفہ آتا ہے ۔ عروضی وقفے مراد کسی بحر میں وہ مقام ہے جہاں آپ ایک حرف بڑھا بھی دیں تو مصرع بے وزن نہ ہو ۔ ان بحروں میں عمومی طور پر افاعیل کے جوڑے کی تکرار ہوتی ہے ۔ مثلا

متفاعلن فعولن، متفاعلن فعولن
مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلن
مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن
ّّوغیرہ

"مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن ۔ میں اعلیحضرت یہ کلام دیکھیے ۔

پوچھتے کیا ہو عرش پر[] یوں گئے مصطفی کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں [] کوئی بتائے کیا کہ یوں

درج بالا مطلع میں مصرعوں کے بالکل درمیان میں عروضی وقفے کی نشاندہی [] کی علامت سے کی گئی ہے ۔ اگر اس مقام میں ایک "حرف" بڑھا بھی دیا جائے تو مصرع وزن میں رہتا ہے ۔ مثلا اسی نعت مبارکہ کا یہ شعر دیکھیے

دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا، دو نیم کر

مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

اب اسے اس طرح دیکھیے

دل کو دے نور و داغِ عش[ق]، پھر میں فدا، دو نیم کر

مانا ہے سن کے شقِ ما[ہ]، آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

پہلے مصرعے میں ق اور دوسرے مصرعے میں ہ نہ بھی ہوں تو مصرعے وزن میں رہیں گے ۔

بحر کی احتیاط
کسی شکستہ بحر میں جہاں آہنگ کے لیے عروضی وقفے کی سہولت ہے وہاں یہ احتیاط بھی رکھی جاتی ہے کہ بالکل درمیان میں آکر کوئی لفظ یا ترکیب نہ ٹوٹے ۔ اسی کلام میں اعلیحضرت کا یہ شعر دیکھیے ۔

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں

مصرع اولی میں "جلوۂ اصل" میں جلوہ بحر کے پہلے حصے اور اصل بحر کے دوسرے میں آ پڑا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے