حروف علت اور اس کے گرانے کا اصول ماہر علم عروض بزم آفتاب کے چیف جسٹس حضرت حافظ وقاری محمد قمر رضا سیفی بریلوی مدظلہ العالی والنورانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں


حروف علت اور اس کے گرانے کا اصول ماہر علم عروض بزم آفتاب کے چیف جسٹس حضرت حافظ وقاری محمد قمر رضا سیفی بریلوی مدظلہ العالی والنورانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں


حروف علت اور اس کے گرانے کا اصول ماہر علم عروض بزم آفتاب کے چیف جسٹس حضرت حافظ وقاری محمد قمر رضا سیفی بریلوی مدظلہ العالی والنورانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں 

حروف علت کی تعریف اور استعمال کے بارے میں جاننے کے لیے، حروف علت وہ حروف ہیں جو آواز میں رکاوٹ کے بغیر بلندی یا کشش پیدا کرتے ہیں۔ یہ تین حروف ہیں¹:

- *الف (ا)*

- *واو (و)*

- *یاء (ی)*


یہ حروف عموماً مد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حروف علت کی مثالیں یہ ہیں:

- *الف:* قَالَ

- *واو:* يَوْم

- *یاء:* قِیَمَة


حروف علت کے استعمال کے اصول بھی اہم ہیں۔ حروف علت کو حروف تہجی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی ادائیگی میں زبان اور دانت آپس میں نہیں ٹکراتے، جس سے وہ آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں.²


اگر آپ مزید تفصیلات چاہتے ہیں تو آپ کو ماہر علم عروض بزم آفتاب کے چیف جسٹس حضرت حافظ وقاری محمد قمر رضا سیفی بریلوی مدظلہ العالی والنورانی سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

حروفِ علت اور اس کے گرانے کا اصول


بسم اللہ الرحمن الرحیم

احبابِ سخن السلام علیکم 

امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہونگیں۔


آئے سلسلہ عروض میں آج کے عنوان کے تحت شاعری میں حروف علت گرانے کے اصول اور ضرورت پر گفتگو کرتے ہیں۔


اردو شاعری میں "علت گرانے" کا اصول عروضی وزن کو برقرار رکھنے کی ایک اہم تکنیک ہے۔ آئیے اسے سلسلہ وار سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔



۔ "علت" سے کیا مراد ہے؟


اردو عروض میں "علت" سے مراد وہ حروف علت مراد  ہیں جو کسی لفظ کے تلفظ کا حصہ ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی تعداد تین ہیں۔


· ا (آلیف)

· و (ؤاہ)

· ی ( یائ)



مثلاً لفظ "کہنا" میں ا اور لفظ "سونا" میں و علت ہیں۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ کہنا میں الف یعنی علت آخر پر ہے جسے گرا کر زبر سے تبدیل کیا جاسکتا ہے تاکہ بحر کے وزن کو برقرار رکھا جائے۔  جب کہ سونا میں و علت ہے لیکن یہ درمیان میں ہے۔ اس  سونا کا واو وزن کی مجبوری کو مد نظر رکھ کر گرایا نہیں جاسکتا ہے۔جدید شاعری میں کچھ لوگ درمیانی واو یا الف کو گراتے ہیں جو کہ معیوب ہے۔


2۔ "علت گرانے" کا مسئلہ کیوں پیش آتا ہے؟


شاعری میں ہر بحر کا ایک مخصوص وزن  ہے، جسے ارکان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب کوئی لفظ بحر کے وزن پر پورا نہیں اترتا، تو شاعر کو مجبوراً اس کے تلفظ میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ یہیں پر "علت گرانے" کا اصول کام آتا ہے۔


مثال:


· بحر کا ایک رکن "فاعلن" (فا ع لن) ہے۔

· لفظ "کہنا" کا اصل تلفظ کہ نا (دو حرکات) ہے۔

· مگر "فاعلن" میں پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہوتا ہے۔

· ایسی صورت میں "کہنا" کو کہہ اور نا کو ن  (یعنی 'ن'  کو زبر کے ساتھ ادا کیا جائے گا۔ یہی اصول آخری علت گرانا کہلاتا ہے۔



۔ علت گرانے کے اصول و طریقے


علت گرانے کے چند بنیادی طریقے ہیں:


الف: آخر کی "ی" کو گرانا


· لفظ کے آخر میں اگر "ی" ہو اور وزن کی خاطر اسے گرانا ضروری ہو، تو اسے گرا دیا جاتا ہے۔

· مثال: "آتے ہیں" کو وزن کے مطابق آتِ ہیں بھی تلفظ کیا جاسکتا ہے اور آ تِ ہِ بھی ۔ دونوں طریقے درست تسلیم کئے جاتے ہیں۔


ب: "ہ" کو گرانا


· لفظ کے آخر میں "ہ" ہو تو اسے گرا کر پہلے حرف پر زور دیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر لفظ   شُبہ ہوگا تو ہ کو گرا گر ب پر ہ کے بجائے زبر لگا دی جائے گی اور تلفظ شبا یعنی آدھے الف کے ساتھ ادا کیا جائے گا۔

ج: "و" کو گرانا


· لفظ کے آخر میں "و" ہو تو اسے  پیس سے بدل کر گرایا جاتا ہے۔ 

جیس اس کو کیا ہو گیا ۔۔۔۔ کا وزن فاعلن فاعلن باندھ سکتے ہیں اس کے لئے کو کے و کو پیش میں تبدیل کر کے گرانا ہوگا۔ 


· لفظ کے آخر میں "ا" ہو تو اسے گرا کر پہلے حرف کو کھینچا جاتا ہے۔

· مثال: "کیا" کو کِیا سے کِیٰ کیا جائے گا۔


 ر: دو حرفی علت کو یک حرفی بنانا


· کبھی دو حروف علت مل کر ایک لمبی آواز بناتے ہیں، انہیں مختصر کر دیا جاتا ہے۔

· مثال: "رواں" کو رُوَاں سے رُوٰں بولا جائے گا۔


۔ علت گرانے میں احتیاط


· علت گرانے سے لفظ کا مفہوم متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

· اسے صرف شاعری تک محدود رکھیں، عام بول چال میں نہ اپنائیں۔

· جدید شاعری میں اب اس کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔


نوٹ: یہ تکنیک صرف اس وقت استعمال ہوتی ہے جب بحر کا تقاضا ہو، ورنہ لفظ کو اس کے اصل تلفظ ہی میں پڑھا جاتا ہے۔


امید ہے کہ آپ کو "علت گرانے" کے اصول کی وضاحت سمجھ آ گئی ہو گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے