ظالم حکمراں کی کہانی ایک دل درد مند کی زبانی شہنشاہ خطابت فخر اہل سنت ناشر مسلک اعلی حضرت قاطع شرک و بدعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزمان مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی ایڈیٹر ادارہ لوح وقلم مظفرپور بہار شریف کے قلم سے


 ظالم حکمراں کی کہانی ایک دل درد مند کی زبانی 

شہنشاہ خطابت فخر اہل سنت ناشر مسلک اعلی حضرت قاطع شرک و بدعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزمان مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی ایڈیٹر ادارہ لوح وقلم مظفرپور بہار شریف کے قلم سے

ظالم حکمراں کی کہانی ایک دل درد مند کی زبانی  شہنشاہ خطابت فخر اہل سنت ناشر مسلک اعلی حضرت قاطع شرک و بدعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزمان مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی ایڈیٹر ادارہ لوح وقلم مظفرپور بہار شریف کے قلم سے


ظالم حکمراں کی کہانی ایک دل درد مند کی زبانی 

شہنشاہ خطابت فخر اہل سنت ناشر مسلک اعلی حضرت قاطع شرک و بدعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزمان مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی ایڈیٹر ادارہ لوح وقلم مظفرپور 

بہار شریف کے قلم سے

خداتجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے۔

ظالم حکمراں کی کہانی ایک دلِ دردمندکی زبانی 


محمدقمرالزماں مصباحی مظفرپوری کے قلم سے


جب بغداد کاحاکم معتصم باللہ اپنے خدا،اپنےنبی اوراپنے قرآن کا پڑھایا ہواسبق بھول گیا تو منگول حاکم ہلاکوخان نے اس کوقرآن کے بھولےہوئے سبق کی یاد دہانی کرائی۔

سنو!

" مسلمان جسے اس کے نبی عالم ماکان مایکون صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے، اخلاق کو روشن کرنے،سیرت وکردارکوسنوارنے،فکروشعورکوآ راستہ کرنے، ہتھیاربنانے،گھوڑے پالنے اورتیر اندازی سیکھنے کی ترغیب دی ہے"


مگر‏مقام حیرت ہے کہ جب امریکی صدرٹرمپ نے سعودی عرب کےبادشاہ کویہ کہتے ہوئےاپنی فوجی بالا دستی کا دھونس جمایا کہ امریکی تحفظ کے بغیرتمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی 

توتماشہ دیکھیں کہ ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کے سونے کاہارپہنایا گیا ۔

یہ ہے دولت کا نشہ،بہتے ہوئے پٹرول کی توانائی کاغروراورمستقبل کے خطرات سے بے نیاز یتیم الفکری کے شکار، یہ حکمراں !


اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جب بغدادکا ظالم حکمراں معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اوربیڑیوں میں جکڑکرچنگیزخان کے پوتے ہلاکو ‏خان کے سامنے پیش کیا گیاتو وہ لمحہ اس کے لئے کس قدرتاریک رہا ہوگا، وہ دن کتنا عبرت ناک ہوگا اورتاریخ کتنی سیاہ رہی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔!


جب کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان خودمٹی کے برتن میں کھانا کھارہاہے اورخلیفہ معتصم باللہ کے سامنے اس کے دسترخوان پر سونے جواہرات اورہیروں سے سجے طشت رکھوا دئیے۔۔۔۔۔


پھراس نےمعتصم سے مخاطب ہوکرکہا 

" جو چیزیں تمہارے سامنے رکھی ہوئی ہیں اسے کھاؤاورخوب شوق سے 

کھاؤ،اس سےاپنے پیٹ کی بھوک مٹاؤ، تم نے اپنے دوربادشاہت میں جوچیزیں اکٹھا کی تھیں وہ زر،جواہرات ،سونا اورچاندی ہی توہیں اب مٹاؤان سے اپنی بھوک اوربجھاؤاپنے پیٹ کی آگ"


بغدادکامغروراورخودسربادشاہ اس وقت بے کسی،مفلسی،بےبسی اوربے چارگی کی مجسم تصویربنا ہلاکوخان کوتکے جارہاتھاتودوسری طرف اسے اپنے ماضی کےکئےہوئے ظلم،سرکشی،تمرداوررعایا کےساتھ جبروقہرکے سارے نقشے نظروں کے سامنےگردش کررہے تھے۔۔۔۔۔۔

لرزتےاورکپکپاتےہونٹوں سے‏گویاہوا "آپ نے میرے سامنے طشت میں جواشیا سجی رکھی ہیں کیاان میں سے کوئی چیزکھانے کے لائق ہیں؟ "


ہلاکوکی ایک ڈانٹ سے شراب کے نشے میں مست معتصم کے وجودکاپورا ڈھانچہ چرمراکے رہ گیا :

" پھرہلاکونےغضب ناک تیورمیں کہاتو تم نے یہ ہیرا،یہ موتی اوریہ جوہرات کس دن کے لئے جمع کئےتھےجب اس وقت تم اس سے نہ شکم سیری حاصل کر سکتے ہواورنہ ہی اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہو؟ 


تم مسلمان جسے تمہارے غیب داں پیغمبربانئ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ علم کے حصول پرزوردیا، علم کونور اورتاریکیوں سےلڑنے کے لیے سب سے مستحکم ہتھیار فرمایا،معاشرے سےظلمتوں کودورکرنے کا علم کوسب سے اہم ذریعہ قراردیا،تیراندازی کےہنرسکھائے، گھوڑے پالنےاور اسلحےتیارکرنے کی ترغیب دی اوراب اسی پیغمبرکو ماننے والی یہ قوم سونے اورچاندی سے محبت کرتی ہے،ہیرے جواہرات کوجمع کرنامقصدزندگی سمجھ بیٹھی اوراس کےنزدیک حیات کا اصل مقصد زراندوزی رہ گیا ہے ہائے افسوس!

معتصم مہربرلب پشیمانیوں میں

 غرق اپنی خجالت کے آ نسوبہا رہاتھااوراس کے سواکربھی کیاسکتاتھا ۔۔۔۔۔


ہلاکونے ایک بارنگاہیں گھما کراس کے خوبصورت محل دیکھے،اسمیں لٹکے ہوئے سونے کے جھالردیکھے، سونے سے منقش اورپانی چڑھائے ہوئےحسین دروازے دیکھے۔ 

اورپھرپوچھا!

 " تم نے ان دیدہ زیب ودلفریب ،دلکش اوربارونق جالیوں کے بجائےاپنے محلات کوآہنی تیروں سے کیوں نہیں سجایا؟

تم نے یہ سونے چاندی جمع کرنے کی بجائے اپنے فوجیوں پراپنے خزانےکے منھ کیوں نہیں کھولے تاکہ وہ اپنی جاں سپاری،جاں فدائی،جانبازی اورسرفروشی کامظاہرہ کرتی اور میرے سپاہیوں سے مقابلہ میں اپنی دلیری دکھاتی "

معتصم باللہ نے ندامت وشرمندگی اورحسرت ویاس کےساتھ جواب دیا:

 " وہ جوکچھ ہوااس میں اللہ کی مرضی شامل تھی "


"ہلاکوخان تیوربدلتے ہوئے بہت ہی گرجدارآوازمیں بولا

 " تو اب تمہارے لئے جو گھڑی آنے والی ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی سے آئے گی "


پھرہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو ایک خاص لباس میں لپیٹ کراپنے سپاہیوں کے ذریعہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندواڈالا اورپھراس کے بعدکیاہواچشم فلک سے پوچھئے کہ دیکھتے دیکھتے ہلاکوخان کی فوج نے پورے بغدادکوقبرستان میں بدل ڈالا۔کل تک جس شہرکواپنے علم،علماء،فقہا، مفسرین ،ارباب فضل وکمال،اپنی درسگاہوں کی عظمت،اپنے عالمی کتب خانے،اپنی ایجادات،اپنےٹیکنالوجی اوردیگرتفردات پہ نازتھا اب وہ ساری باتیں خواب میں بدل چکی تھیں ،اب ساری درسگاہیں سونی تھیں،کتب خانے جل کر راکھ کے ڈھیر ہوچکے تھے ،رونقیں چھن چکی تھیں،آبادیوں پرویرانوں کے قبضے تھے،دریائے دجلہ کاپانی جلنے والی کتابوں کے راکھ سے کالاہوچکا تھا، جہاں کچھ دیرقبل گلشن وگلزارکی نکہت بیزیاں تھیں ،بہاروں کے قافلے اتررہے تھے،ہرہرقدم پررعنائیوں کا ہجوم تھا مگروہاں اب ویرانیاں ہیں،خاموشیاں ہیں،سناٹےہیں ،جلتے ہوئے مکانات ہیں، دھواں اٹھتی فضائیں ہیں کتب خانے راکھوں کاملبہ ہےاوربس!چند ہی ثانیہ بعدپوراشہرسیاہ تاریخ کا ایک عبرت ناک حصہ بن کررہ گیا۔۔۔۔


پورے بغدادکوتہہ وبالاکرنے کے بعدہلاکونےکیا کہا اسے دل کے کان سے سنیں " آج میں نے بغدادکوصفحہ ہستی سے نیست ونابودکرڈالااوراب دنیا کی کوئی قوت بغدادکواس کالوٹاہوا ہواحسن، اس کی دلکشی،اس کی رعنائی اوراس کی خوبصورتی واپس نہیں دلا سکتی ہاں ہاں!وہی زیبائش وآرائش جوابھی چندگھنٹوں پہلے اس شہرکی پیشانی سے نمایاں تھی۔

اوریہ ایک تاریخی سچائی ہےکہ ہوابھی ایسا ہی ۔۔۔۔


یقین جانیں تاریخ بادشاہوں کے فتوحات گنتی ہے، علمی جلالت وشوکت کی داستانیں رقم کرتی ہے ،حسنِ اعمال اورجوش کردارکی باتیں محفوظ کرتی ہے،اس کی فکری سطوت وجبروت کے ترانے یادرکھتی ہے،اس کے پاکیزہ اخلاق اوراخلاص ویقین کےچمکتے نقوش کواپنے سینوں میں جگہ دیتی ہے 

 

ہیرے جواہرات سےٹکے 

لباس،زمرداوریاقوت سےسجے تاج،سونے چاندی سے بنے محلات اوردسترخوان پرذائقہ دار، پرلطف،پرتکلف اورلذیذکھانے کی اس کی نظر میں نہ کوئی وقعت ہےاورنہ ہی کوئی اہمیت ۔۔۔۔۔


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے گھروں میں لذیذ کھانے اورعمدہ پکوان تودورکی بات رہی اکثراوقات تو فاقوں میں بسرہوتےمگراقوام عالم پر جہاں رانی کا ہنرکوئی ان سے سیکھے اوریہ سب اس لئے کہ ان کے ہاتھوں میں نبی کا دیا ہوا قرآن تھا،عشق رسول کی متاع بے بہاتھی تو دوسری طرف طاغوتی طاقتوں سے لڑنے کے لئے گھر کی دیوارں پرتلواریں لٹکی ہوتیں۔


ذرا تصوررات کی دنیا میں ماضی کاسفرکریں،دل دماغ پرزوردیں اوراپنے شعورکوپوری طرح کام میں لائیں۔۔۔۔۔۔ کہ

جب یورپین ممالک میں قدم قدم پرریسرچ کی بنیادیں رکھی جارہی تھیں ،چاندپہ جانے کی باتیں ہورہی تھیں ، خلاؤں کے ناپنے کی تیاری چل رہی تھی،جا بجا تجربہ گاہیں اورتحقیقاتی مراکز قائم کئے جارہے تھے تب سونے کی تھالی میں کھانے والا اورہیرے موتی کے محلات میں عشرتوں کی چادرتان کرسونے والا مغلیہ سلطنت کا شہزادہ اپنی محبتوں کے گل رعنا کی یاد میں تاج محل تعمیرکروا رہاتھا۔۔۔۔

اورٹھیک اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے حمل کے دوران اس کے مرنے پر بجائے افسوس کےاس وجہ کوتلاش کررہاہے جس سےاس کی موت واقع ہوئی اوراس کا سراغ لگانے اورمرض کی تہہ تک پہونچنے کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل اسکول کی بنیادرکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ 


‏جب مغرب میں علوم وفنون کے نئے نئے باب فتح کئےجارہے تھے تب ہندوستان کےمغلیہ بادشاہوں کی چوکھٹ پر بیٹھ کر تان سین جیسے لوگ نت نئے سُراورراگ ایجاد کر رہےتھے اوریہیں پربس ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ستم بالائے ستم یہ کہ کم عمرحسین دوشیزائیں اوردلربا رقاصائیں شاہی درباروں کی رونق اوران کی عیاش فکروں اوربیمارروحوں کی تسکین کا سامان فراہم کررہی تھیں۔۔۔۔۔۔!


‏جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری جہاز ہمارے ملک کے ساحلی علاقوں پرلنگراندازہورہےتھے تب ہمارے حکمراں اورنوابین شراب کی مستیوں میں ڈوبے شباب و کباب اورچنگ و رباب کے مزے لوٹ رہے تھے۔۔۔


لیکن یقین جانیں فتح وظفراورنصرت وکامرانی بادشاہوں کی تجوریوں اوربھرے ہوئے خزانوں کی رہین منت نہیں ہیں یہ سب تو اپنے ملک سے وفاداری، عدالتی نظام کے نفاذ،اپنی رعایا کے ساتھ اخلاقی قدروں کے فروغ اوران کے مابین حسنِ سلوک کا نتیجہ ہیں تاریخ کے صفحات پر فتح مندی کی جتنی بھی داستانیں رقم ہوئی ہیں اس میں زرجواہرات کاکہیں کوئی ذکرنہیں ہےاوراسےان چیزوں سےغرض بھی کیوں ہووہاں تو اخلاص ووفا کی پیمائش ہوتی ہے اورسیرت وکردارکے جلوؤں کی نمائندگی دیکھی جا تی ہے اسے اس بات سے کیا مطلب کہ بادشاہوں کے تاج کتنے زرنگارہیں،کتنےقیمتی ہیں، اس میں چمک کتنی ہے اوراس میں موتی کتنے جڑےہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


فتح مندی کوتواس بات سےبھی‏ دورکا علاقہ نہیں کہ شہنشاہوں کی چوکھٹوں پرطوائفوں،عصیاں شعاروں،بدخصلتوں،طبلہ نوازوں، مرثیہ خوانوں، خوشامدپسندوں، وظیفہ پرپلنے والے شاعروں اور ہاتھ باندھ کرکھڑے رہنے والے چاپلوسوں کی بھیڑہےیا نہیں؟


تاریخ کی نظرصرف کامرانی اورفلاح وظفر پرہوتی ہے اوریہ بھی ایک زمینی سچائی ہےکہ تاریخ کبھی معذرت خواہانہ ذہن کوقبول نہیں کرتی۔۔۔۔!


مگرمیں پورے یقین اوراعتمادسے کہہ رہاہوں کہ آج بھی جوملک دولت کے نشے میں چورہے،ثروتوں کے ہجوم میں گھراہے،سروں پہ پیسوں کا بھوت سوارہے اورجومسلم حکمراں اپنے عشرت کدوں میں شراب و کباب کےمزے لوٹ رہے ہیں ان کا حال بھی خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہونے والاہے۔

اللہ تعالیٰ مسلم حکمرانوں کوعقل سلیم سے نوازے۔


نوٹ۔ اس مضمون کا عنوان صرف ملک کے حکمراں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب اصحاب ثروت بھی ہیں جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے اورتجوریاں خزانوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن گھرگھرکاعلم وہنرسے یکسرخالی ہے اورشعوروآگہی کے حوالے سے پورے طورپرتہی دامنی کے شکارہیں 

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

تمہارے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے