ایک سبق آموز حکایت

 ایک سبق آموز حکایت

ایک سبق آموز حکایت


محمدسلمان رضا دہلی یونیورسٹی دہلی


حضرتِ سیِّدُنا منصوربن عمارعلیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عابدشب زندہ دار،متقی،پرہیزگار،تہجدگزاراورخوف الٰہی میں ڈوبا ہوا شخص میرابڑاگہرادوست اورمیرے ہردور والم میں برابر کاشریک وسہیم اور اس قدرمیراگرویدہ تھاکہ مجھ سےملے بغیراسے کسی کروٹ چین ہی نہیں ملتا۔ پھرایسا ہواکہ اس کا آناجانایک لخت بندہوگیا اورایک اچھاخاصا وقت بیت گیااوراس سے ملاقات نہ ہوسکی ۔دریافت کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہ شخص بسترعلالت پراضطراب کی کروٹیں لے رہا ہے۔یہ خبرسنتے ہی میں اس کے گھرپہونچا تواس سے ملنے کےبعدمیری حیرت و استعجاب کی انتہا نہ رہی دیکھا تودیکھتا ہی رہ گیا ۔ہونٹ موٹے،آ نکھیں نیلی اورچہرہ پورے طورپرسیاہ ہوچکا ہے۔ یہ وحشت ناک منظردیکھ کرمیرےپورے وجودپرلرزہ طاری ہوگیا،بے چینی،بےقراری اورایک عجیب کرب سے میں دوچارتھا اسی خوف ودہشت کے ماحول میں عرض گزارہوا: ’’اے مرے برادرعزیز!لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی کثرت کر! ‘‘اس نے میرےاس جملے پراس نےآنکھیں کھولیں اوربہ دقت تمام میری طرف دیکھا اورپھروہ بے ہوش ہو گیا۔ دوسری بارکچھ ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار میں نے اس سے کہاکہ ’’اگر تو نےکَلِمَۂ طَیِّبَہ کاورد نہ کیا تو میں تجھے نہ غسل دوں گا، نہ کفن پہناؤں گااورنہ ہی تیری نمازِجنازہ پڑھوں گا۔‘‘یہ سن کر اُس نے آنکھیں کھول دیں اورکہا ’’اے میرے بھائی منصور!کلمۂ طیبہ اورمیرے مابین ایک دیوارحائل کردی گئی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوۃ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘کہاں گئیں تیری وہ شب بیداریاں،سجدوں کےاجالے،نمازوں کی پابندیاں،دن کےروزے اورراتوں کی عبادت ؟‘‘ :یہ سن کراس نے ندامت کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا:، میرے وہ اعمال خدائے ذوالجلال کی خوشنودی کے لئے نہیں تھے، بلکہ جوکچھہ میں نےکیا اس میں میری ریا،سمعہ اوردکھاوے کاعمل دخل زیادہ تھا تاکہ لوگ مجھےمتقی،پرہیزگار،عبادت گزار،صوم وصلوة کاپابنداورتہجدگزارکہیں۔ جب میں گھرمیں اکیلاہوتا تولوگوں کی نگاہوں سےچھپ کرننگا ہوکر شراب نوشی میں مشغول ہوتا اورگناہوں میں لت پت ہوکرخدا کی ناراضگی کو رات بھر دعوت دیتا۔ ایک زمانے تک نافرمانی،عصیاں شعاری اورسرکشی کا یہ بھیانک دورچلتارہا۔ پھرہم پرمرض نےایساسخت حملہ کیاکہ زندگی کی شمع گل ہوتی نظرآئی،حیات کے آخری لمحات نگاہوں میں رقص کرنے لگےاورجینےکی کوئی امیدباقی نہ رہی،میں نے قرآن شریف منگواکراس کی تلاوت کرنی شروع کی جب سورۂ یٰسین شریف تک پہنچا تو قرآن مقدس کوبلندکرکے خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں  عرض گزارہوا : ’’اے اللہ!  اس مصحف مقدس کے صَدْقے مجھے شفا عطا فرما،میں آیندہ خطا سےبازآجاؤں گا۔‘‘اللہ رب العزت نے میری دعاکوشرف قبولیت سے مشرف فرمایااورالحمد اللہ میں صحتیاب ہوگیا ۔مگرمیں شیطان کے دام فریب میں آگیا اوراپنےپروردگاسے کیا ہوا وعدہ پھرسے فراموش کربیٹھااورایک  مدت مدیدتک رب کی نافرمانی اور عصیان وسرکشی میں مبتلاء رہا ۔ پھرمیں موذی مرض میں مبتلاء کردیا گیا۔جب سانس کی ڈوری پورے طورپرڈھیلی پڑنے لگی اور زندگی کی آس یاس میں بدلنےلگی  تو میں نے پھر قرآن مجیدکا وسیلہ  دے کرآنکھوں کے بہتےجھرنوں کے ساتھ اپنےکریم مولی سے اپنی خطاؤں کی معافی کاخواست خوارہوا،اس غفورورحیم پروردگار کے احسان وکرم کے قربان اس نے مجھےپھرسے دولتِ صحت سے سرفرازفرمایا۔لیکن براہونفس امارہ کا!میں پھرسےلذات زندگی اورنفس بدکےچنگل میں پڑگیا اور پھرمیں نے قرآن مقدس منگوا یا اورتلاوت شروع کی توایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ اوریہ احساس پورے طور پرکچوکے لگانے لگااور یہ یقین مکمل طورپرجاگ اٹھاکہ رحمت الہیٰ مجھ سے سخت ناراض ہے میں نے قرآن کریم کوہاتھ میں لیا اورپورے الحاح وزاری کےساتھ عرض کیا : اے اللہ ! تجھے تیرے اپنے مبارک کلام کا واسطہ جومومنین کے لیے کامل شفا ہے،جوروحانی اورجسمانی بیماریوں کے لئے تریاق ہے،جس کی تلاوت دلوں میں جلااورروح کی خلوت کدوں میں اُجالابخشتی ہے،جس کی تلاوت عذاب قبرسے بچاتی اورفردوس کی بہاروں سے قریب کرتی ہے اسی کتاب کو وسیلہ بناکرتیری بارگاہ پرعظمت میں ملتجی ہوں! مجھے اس مہلک مرض سے نجات عطا فرما ۔توغیب سےایک آوازآئی جب تجھ پہ پریشانی آتی ہے توتوبہ کرلیتا ہےاورجب صحت مندہوجاتا ہے توپھرسرکشی اورعصیان پرآمادہ ہوجاتا ہے۔سخت بیماریوں میں آنسوبہاتا ہےاورصحت ملنے پرنفس امارہ کے اشارےپرچلتا ہے ۔کتنی مرتبہ دردوکرب،آلام ومصائب  اورزحمت وکلفت میں توگھرالیکن خدائے تعالیٰ نےتجھے ان تمام دشواریوں سے نجات بخشی۔ مگراس کے حکم کی نافرمانی کرتارہا اورگناہوں سےبازآنے کے بجائے بحرِعصیاں میں غرق رہااورایک زمانے تک اس کی حکم عدولی میں لگا رہا۔ کیا تجھے موت کا ڈر نہ تھا؟ ہوش وخردرکھنےکے باوجوداپنے گناہوں پرڈَٹا رہا اورخدائے ذوالمنن کی بخشش وعطا،لطف واحسان،برکات وعنایات اورنوازشات وفیضان کویکسربھول گیا ۔ خشیت الہٰی سےتیرے جسم پرنہ کوئی لرزہ طاری ہوا،نہ کبھی ندامت کے آنسو بہے، نہ کبھی رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کی ،نہ اپنے کئے جرم پر لجائےاورنہ ہی شرمندگی کے آنسو بہائے ۔نہ جانےکتنی بارتونےاپنے رب سےکئے ہوئے وعدہ کوتوڑا،بلکہ سچائی تویہ ہے کہ اپنےرب کےسارےاحسانات کوہمیشہ کےلئے بھلابیٹھا اوراب دنیا ہی میں تجھے یہ بتایاجارہا ہے کہ تیری آخری جگہ قبرہے، جوہرساعت تجھے موت کی خبردےرہی ہے۔‘‘حضرتِ سَیِّدُنا منصوربن عما ررَحْمَۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ’’رب کعبہ کی قسم! اس کی باتیں سن کر میری ہچکیاں بندھ گئیں، میری آنکھوں سے آنسوؤں کےسیلاب نکل پڑےاورابھی اپنے گھرپہنچا بھی نہیں تھاکہ مجھے یہ اندوہناک خبر ملی کہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے۔انا لللہ واناالیہ راجعون 

آ ئیے ہم سب مل کراپنے خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ذوقِ عبادت کے ساتھ خداوندِمتعال اخلاص فی العمل کی دولتِ فراواں سےبھی نوازے، نام ونمودسےبچائے،صائم الدہراورقائم اللیل ہونےکےساتھ ریا سے محفوظ رکھےاورحسنِ خاتمہ عطا فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین افضل الصلوات وعلیہ التکریم۔(تلخیص من الروض الفائق ص۱۷)

ایک سبق آموز حکایت  محمدسلمان رضا دہلی یونیورسٹی دہلی  حضرتِ سیِّدُنا منصوربن عمارعلیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عابدشب زندہ دار،متقی،پرہیزگار،تہجدگزاراورخوف الٰہی میں ڈوبا ہوا شخص میرابڑاگہرادوست اورمیرے ہردور والم میں برابر کاشریک وسہیم اور اس قدرمیراگرویدہ تھاکہ مجھ سےملے بغیراسے کسی کروٹ چین ہی نہیں ملتا۔ پھرایسا ہواکہ اس کا آناجانایک لخت بندہوگیا اورایک اچھاخاصا وقت بیت گیااوراس سے ملاقات نہ ہوسکی ۔دریافت کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہ شخص بسترعلالت پراضطراب کی کروٹیں لے رہا ہے۔یہ خبرسنتے ہی میں اس کے گھرپہونچا تواس سے ملنے کےبعدمیری حیرت و استعجاب کی انتہا نہ رہی دیکھا تودیکھتا ہی رہ گیا ۔ہونٹ موٹے،آ نکھیں نیلی اورچہرہ پورے طورپرسیاہ ہوچکا ہے۔ یہ وحشت ناک منظردیکھ کرمیرےپورے وجودپرلرزہ طاری ہوگیا،بے چینی،بےقراری اورایک عجیب کرب سے میں دوچارتھا اسی خوف ودہشت کے ماحول میں عرض گزارہوا: ’’اے مرے برادرعزیز!لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی کثرت کر! ‘‘اس نے میرےاس جملے پراس نےآنکھیں کھولیں اوربہ دقت تمام میری طرف دیکھا اورپھروہ بے ہوش ہو گیا۔ دوسری بارکچھ ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار میں نے اس سے کہاکہ ’’اگر تو نےکَلِمَۂ طَیِّبَہ کاورد نہ کیا تو میں تجھے نہ غسل دوں گا، نہ کفن پہناؤں گااورنہ ہی تیری نمازِجنازہ پڑھوں گا۔‘‘یہ سن کر اُس نے آنکھیں کھول دیں اورکہا ’’اے میرے بھائی منصور!کلمۂ طیبہ اورمیرے مابین ایک دیوارحائل کردی گئی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوۃ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘کہاں گئیں تیری وہ شب بیداریاں،سجدوں کےاجالے،نمازوں کی پابندیاں،دن کےروزے اورراتوں کی عبادت ؟‘‘ :یہ سن کراس نے ندامت کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا:، میرے وہ اعمال خدائے ذوالجلال کی خوشنودی کے لئے نہیں تھے، بلکہ جوکچھہ میں نےکیا اس میں میری ریا،سمعہ اوردکھاوے کاعمل دخل زیادہ تھا تاکہ لوگ مجھےمتقی،پرہیزگار،عبادت گزار،صوم وصلوة کاپابنداورتہجدگزارکہیں۔ جب میں گھرمیں اکیلاہوتا تولوگوں کی نگاہوں سےچھپ کرننگا ہوکر شراب نوشی میں مشغول ہوتا اورگناہوں میں لت پت ہوکرخدا کی ناراضگی کو رات بھر دعوت دیتا۔ ایک زمانے تک نافرمانی،عصیاں شعاری اورسرکشی کا یہ بھیانک دورچلتارہا۔ پھرہم پرمرض نےایساسخت حملہ کیاکہ زندگی کی شمع گل ہوتی نظرآئی،حیات کے آخری لمحات نگاہوں میں رقص کرنے لگےاورجینےکی کوئی امیدباقی نہ رہی،میں نے قرآن شریف منگواکراس کی تلاوت کرنی شروع کی جب سورۂ یٰسین شریف تک پہنچا تو قرآن مقدس کوبلندکرکے خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں  عرض گزارہوا : ’’اے اللہ!  اس مصحف مقدس کے صَدْقے مجھے شفا عطا فرما،میں آیندہ خطا سےبازآجاؤں گا۔‘‘اللہ رب العزت نے میری دعاکوشرف قبولیت سے مشرف فرمایااورالحمد اللہ میں صحتیاب ہوگیا ۔مگرمیں شیطان کے دام فریب میں آگیا اوراپنےپروردگاسے کیا ہوا وعدہ پھرسے فراموش کربیٹھااورایک  مدت مدیدتک رب کی نافرمانی اور عصیان وسرکشی میں مبتلاء رہا ۔ پھرمیں موذی مرض میں مبتلاء کردیا گیا۔جب سانس کی ڈوری پورے طورپرڈھیلی پڑنے لگی اور زندگی کی آس یاس میں بدلنےلگی  تو میں نے پھر قرآن مجیدکا وسیلہ  دے کرآنکھوں کے بہتےجھرنوں کے ساتھ اپنےکریم مولی سے اپنی خطاؤں کی معافی کاخواست خوارہوا،اس غفورورحیم پروردگار کے احسان وکرم کے قربان اس نے مجھےپھرسے دولتِ صحت سے سرفرازفرمایا۔لیکن براہونفس امارہ کا!میں پھرسےلذات زندگی اورنفس بدکےچنگل میں پڑگیا اور پھرمیں نے قرآن مقدس منگوا یا اورتلاوت شروع کی توایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ اوریہ احساس پورے طور پرکچوکے لگانے لگااور یہ یقین مکمل طورپرجاگ اٹھاکہ رحمت الہیٰ مجھ سے سخت ناراض ہے میں نے قرآن کریم کوہاتھ میں لیا اورپورے الحاح وزاری کےساتھ عرض کیا : اے اللہ ! تجھے تیرے اپنے مبارک کلام کا واسطہ جومومنین کے لیے کامل شفا ہے،جوروحانی اورجسمانی بیماریوں کے لئے تریاق ہے،جس کی تلاوت دلوں میں جلااورروح کی خلوت کدوں میں اُجالابخشتی ہے،جس کی تلاوت عذاب قبرسے بچاتی اورفردوس کی بہاروں سے قریب کرتی ہے اسی کتاب کو وسیلہ بناکرتیری بارگاہ پرعظمت میں ملتجی ہوں! مجھے اس مہلک مرض سے نجات عطا فرما ۔توغیب سےایک آوازآئی جب تجھ پہ پریشانی آتی ہے توتوبہ کرلیتا ہےاورجب صحت مندہوجاتا ہے توپھرسرکشی اورعصیان پرآمادہ ہوجاتا ہے۔سخت بیماریوں میں آنسوبہاتا ہےاورصحت ملنے پرنفس امارہ کے اشارےپرچلتا ہے ۔کتنی مرتبہ دردوکرب،آلام ومصائب  اورزحمت وکلفت میں توگھرالیکن خدائے تعالیٰ نےتجھے ان تمام دشواریوں سے نجات بخشی۔ مگراس کے حکم کی نافرمانی کرتارہا اورگناہوں سےبازآنے کے بجائے بحرِعصیاں میں غرق رہااورایک زمانے تک اس کی حکم عدولی میں لگا رہا۔ کیا تجھے موت کا ڈر نہ تھا؟ ہوش وخردرکھنےکے باوجوداپنے گناہوں پرڈَٹا رہا اورخدائے ذوالمنن کی بخشش وعطا،لطف واحسان،برکات وعنایات اورنوازشات وفیضان کویکسربھول گیا ۔ خشیت الہٰی سےتیرے جسم پرنہ کوئی لرزہ طاری ہوا،نہ کبھی ندامت کے آنسو بہے، نہ کبھی رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کی ،نہ اپنے کئے جرم پر لجائےاورنہ ہی شرمندگی کے آنسو بہائے ۔نہ جانےکتنی بارتونےاپنے رب سےکئے ہوئے وعدہ کوتوڑا،بلکہ سچائی تویہ ہے کہ اپنےرب کےسارےاحسانات کوہمیشہ کےلئے بھلابیٹھا اوراب دنیا ہی میں تجھے یہ بتایاجارہا ہے کہ تیری آخری جگہ قبرہے، جوہرساعت تجھے موت کی خبردےرہی ہے۔‘‘حضرتِ سَیِّدُنا منصوربن عما ررَحْمَۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ’’رب کعبہ کی قسم! اس کی باتیں سن کر میری ہچکیاں بندھ گئیں، میری آنکھوں سے آنسوؤں کےسیلاب نکل پڑےاورابھی اپنے گھرپہنچا بھی نہیں تھاکہ مجھے یہ اندوہناک خبر ملی کہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے۔انا لللہ واناالیہ راجعون  آ ئیے ہم سب مل کراپنے خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ذوقِ عبادت کے ساتھ خداوندِمتعال اخلاص فی العمل کی دولتِ فراواں سےبھی نوازے، نام ونمودسےبچائے،صائم الدہراورقائم اللیل ہونےکےساتھ ریا سے محفوظ رکھےاورحسنِ خاتمہ عطا فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین افضل الصلوات وعلیہ التکریم۔(تلخیص من الروض الفائق ص۱۷)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے