رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی


رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی


 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

صحیح البخاری


کتاب: وحی کا بیان


باب:

 رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی

حدیث نمبر: 1

  رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے 

ہوئی


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

صحیح البخاری

کتاب: وحی کا بیان

باب: وحی کی ابتداء

حدیث نمبر: 3


ترجمہ:

 یحییٰ بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ ﷺ پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ ﷺ دیکھتے تھے، چناچہ جب بھی آپ ﷺ خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ ﷺ کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چناچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ ﷺ بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا( اللہ اکبر )چناچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو ، مجھے کمبل اڑھا دو ، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) آپ ﷺ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چناچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ؟ تو جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تھا، بیان کردیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس حرا میں آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (يٰا اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۔ ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی۔ عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔ 

                             پیش کردہ

محمد شارف رضا متعلم مدرسہ جامعہ گلشن مدینہ سرتا العلوم دریا آباد

                             نظر ثانی

صاحب اعلم حضور سید آفتاب عالم گوہرو قادری

جامعہ ام سلمہ و جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم و ام سلمہ جونیر ہائ اسکول دریا آباد میں

اپنے بچوں اور بچیوں کے روشن مستقبل کے لیے رابطہ قائم کریں 

 8009059597   8009968910 


 حمیدی، سفیان، یحییٰ بن سعید انصاری، محمد بن ابراہیم تیمی، علقمہ بن وقاص لیثی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اعمال کے نتائج نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چناچہ جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو کہ وہ اسے پائے گا، یا کسی عورت کے لئے ہو، کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہو۔ 


 محمد صارف رضا متعلم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم

 دریا آباد

نظر ثانی 

صاحب اعلم حضور سید آفتاب عالم گوہر قادری

جامعہ ام سلمہ و جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم و ام سلمہ جونیرہایی اسکول دریاآاباد میں 

اپنے بچوں اور بچیوں کا داخلہ کرانے کے لیے رابطہ کریں

 8009968910 8009059597

https://www.jamiaummesalma.com/2023/05/blog-post_28.html

رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے