سہرا نوشۂ بزمِ جنت_ از قلم ✒ استاذ الشعرا حضرت مولانا شہباز حیرت چشتی صاحب قبلہ

سہرا نوشۂ بزمِ جنت

کلامِ شہباز حیرت چشتی

ہے شبِ معراج اور خیر البشر سہرے میں ہے
مالک کونین شاہِ بحر و بر سہرے میں ہے

سج رہی ہیں آج حورانِ بہشتی اس لیے
آمنہ بی بی ترا لختِ جگر سہرے میں ہے

فرش سے ہیں عرش تک شادی کی دھومیں ہر طرف
آج بزم دوجہاں کا تاجور سہرے میں ہے

آمدِ نوشہ کی دھومیں ہیں ابھی سے عرش پر
جبکہ نوشہ دوجہاں کا، فرش پر سہرے میں ہے

ذکر کرتے ہیں سرِ افلاک باہم یہ ملک
آج عبد اللہ کا نورِ نظر سہرے میں ہے

نکلے جس گھر سے وہ اور جس راہ سے ہوکر گئے
مشک بو وہ راستہ ہے اور گھر سہرے میں ہے

بن کے باراتی فرشتے چل رہے ہیں ساتھ ساتھ
آج ہر مخلوق حق کا راہبر سہرے میں ہے

اس سے بڑھ کر کیا ملے گا آدمیت کو شرف
ایک انساں آج کی شب عرش پر سہرے میں ہے

کیوں نہ تعظیماً مہ و اختر بچھیں قدسی جھکیں
آج حیرت مالک ہر خشک و تر سہرے میں ہے

شہباز حیرٓت چشتی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے