فتویٰ۔۔صاحب ‏فتاویٰ ‏یار ‏علویہ ‏شیخ محترم مفتی منظور احمد یار علوی ‏صدر ‏شعبۂ ‏افتا ‏دارالعلوم ‏برکاتیہ ‏گلشن ‏نگر ‏جوگیشوری ‏ممبئی


جن نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ نہیں ہے جیسے عصر اور فجر ، ان نمازوں میں امام کس طرف رخ کر کے بیٹھے؟ دائیں طرف یا بائیں طرف یا مقتدیوں کی طرف ؟ ہمارے یہاں اس بارے میں اختلاف ہورہا ہے، خالد کہتا ہے دا ہنی طرف رخ کر کے بیٹھے ، حامد کہتا ہے مقتدیوں کی طرف اور حامد کو اپنی بات پر اصرار ہے کس کا قول صحیح ہے ، حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں جزا کم اﷲ فقط ،بینوا توجروا۔

------------------------------------------
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
داہنی طرف رخ کر کے بیٹھنا اولیٰ ہے مگر اس پر مداومت نہ کرے گاہے بائیں طرف بھی مڑ کر بیٹھے تاکہ لوگ داھنی طرف رخ کر کے بیٹھنے کو ضروری نہ سمجھ لیں اور سامنے کوئی مقتدی نماز نہ پڑھ رہا ہو تو مقتعدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے حضور ا سے یہ بھی ثابت ہے ۔
مشکوٰۃ شریف میں ہے عن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ عنہ قال کان رسول اﷲ ﷺاذا صلی صلوٰۃ اقبل علینا بوجھہ رواہ البخاری عن البراء قال کنا اذا صلینا خلف رسول اﷲ ﷺاحببنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہ قال فسمعتہ یقول رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک،رواہ مسلم ۔(مشکوٰۃ شریف باب الدعآء فی التشھد ص ۸۷)
مراقی الفلاح میں ہے وعقب الفرض ان لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل (الناس) ان شاء ان لم یکن فی مقابلۃ مصل لما فی الصحیحین کان النبی ﷺاذا صلی اقبل علینا بوجھہ ، وان شاء الا مام انحرف عن یسارہ جعل القبلۃ عن یمینہ وان شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلہ عن یسارہ وھذا اولیٰ لما فی مسلم کنا اذا صلینا خلف رسول اﷲ ﷺاحببنا ان نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجھہ… الخ (مراقی الفلاح مع طحطاوی ص ۱۷۱)

واللہ تعالی اعلم
کتبہ 
منظوراحمدیارعلوی
دارالعلوم.اہلسنت برکاتیہ 
گلشن نگر جوگیشوری
ممبئی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے