کلامِ احسان اللہ علیمی

بزم سادات
ان کی پیزار سے مس ہوکے جو سر آئے گا 
تاب ذرات کے جلوؤں سے نکھر آئے گا

من رأنی کی طلب گار ہیں آنکھیں میری
"دشت ایمن میں مجھے خاک نظر آئے گا"

مزرَعِ دل پہ حسیں نعت کا پودا تو کھلا
آبیاری کو مدینے سے مطر آئے گا

نغمئِہ صلِّ علی پڑھ کے اٹھاؤ خامہ
بام افلاک سے مضمون اتر آئے گا

چشم  الطاف و عنایات کا ابر باراں
کِشت ادراک پہ برسے تو ہنر آئے گا

خیمہ زن آنکھ میں رہتی ہے بہار طیبہ
"دشت ایمن میں مجھے خاک نظر آئے"

اک نظر دیکھ لے طیبہ کا جمالی منظر
چشم کوتاہ میں نوروں کا شرر آئے گا

بحر الفت کا ہے غوّاص مرا مُرغ خرد
غوطہ زن ہوگا تو مدحت کا گہر آئے 

وحشَتِ حشر سے امت کی حفاظت کرنے
بہر اِفضال شفاعت کا قمر آئے گا

شام غربت پہ مرے وصل کا سورج چمکے
جسمِ تاریک تجلّی سے نکھر آئے گا

طائر  فکر مدینے میں اڑا کر دیکھو! 
گلشن عشق  نگاہوں میں نظر آئے گا

بام رفعت کےمکیں رشک کریں گے مجھ پر
نوشئِہ بزم دنیٰ جو مرے گھر آئے گا

بزم  "سادات"  سے  الحاق تخیل کر لے
فکرکی شاخ پہ نعتوں کا ثمر آئے گا

من رأنی کی تو  تسبیح پڑھا کر پیہم
"قد رألحق" کا تجھے جلوہ نظر آئے گا

آنسوئے ہجر سے سیماب بنانا سیکھو! 
شاخ طوبی کا قلم لکھنے اتر آئے گا

شبنمِ عشق سے آنکھوں کا وضو کر پہلے
شہر پر نور سے پھر اذن سفر آئے گا

بس اسی آس پہ بیٹھا ہوں لیے زاد سفر
کوئی پیغام رساں لے کے خبر آئے گا

منسلک ہند کے حسان سے رشتہ کرلے
مطلع عشق پہ مدحت کا قمر آئے گا

قبر کی تیرہ شبی پل میں مٹانے احساں
طلعَتِ نور لئے خیر بشر آئے گا

نعت سرکار کی برکت سے یقیناً اک دن
حلقئہِ نعت میں "احسان"  ابھر  آئے گا

         احسان اللہ رضوی علیمی
             سنت کبیر نگر یوپی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے